اشاعتیں

جون, 2022 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

آدھا سچ

آدھا سچ اسی لیے خطرناک ہوتا ہے کیونکہ یہ ہمیں اس بقیہ کو بھی سچ ماننے پر مائل کرتا ہے جو ہم نے ابھی دیکھا یا سنا ہی نہیں ہے۔ یہ اس گیپ کو اپنی مرضی کی فیلیسی سے فل کرتا ہے جو آدھے اور پورے سچ کے درمیان ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ seeing is believing بالکل اسی طرح believing is seeing بھی اتنا درست ہے۔ seeing is believing آدھا سچ ہے اور جب ہم اس آدھے سچ کو مان لیتے ہیں تو پھر ہم believing is seeing کے تحت جو مان لیتے ہیں اسی نظر سے باقی کے آدھے سچ کو دیکھتے ہیں۔ یہاں جانبداری اپنی راہ لیتی ہے اور اسے آدھے سچ کے ایمان پہ باقی کا آدھا سچ فیلیسی (fallacy) سے مکمل کرتی ہے کیونکہ انسان کا دماغ آدھے سچ اور پورے سچ کے درمیان خلا (gap) کو مدلل اور ہم آہنگ طریقے (logical and consistent way) سے خود سے مکمل کرنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ انسان فطری طور پر خود کو کامل دیکھنا چاہتا ہے۔ کسی بھی بے ربط کہانی میں دماغ اپنے ماضی کے تجربات و مشاہدات اور اپنی قریبی ثقافت اور معاشرتی رجحانات و روایات کی روشنی میں ربط خود سے پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ کہانی ہم آہنگ اور غیر متناقض لگے۔ یہی اس گیپ فیلیس