آدھا سچ

آدھا سچ اسی لیے خطرناک ہوتا ہے کیونکہ یہ ہمیں اس بقیہ کو بھی سچ ماننے پر مائل کرتا ہے جو ہم نے ابھی دیکھا یا سنا ہی نہیں ہے۔ یہ اس گیپ کو اپنی مرضی کی فیلیسی سے فل کرتا ہے جو آدھے اور پورے سچ کے درمیان ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ seeing is believing بالکل اسی طرح believing is seeing بھی اتنا درست ہے۔ seeing is believing آدھا سچ ہے اور جب ہم اس آدھے سچ کو مان لیتے ہیں تو پھر ہم believing is seeing کے تحت جو مان لیتے ہیں اسی نظر سے باقی کے آدھے سچ کو دیکھتے ہیں۔ یہاں جانبداری اپنی راہ لیتی ہے اور اسے آدھے سچ کے ایمان پہ باقی کا آدھا سچ فیلیسی (fallacy) سے مکمل کرتی ہے کیونکہ انسان کا دماغ آدھے سچ اور پورے سچ کے درمیان خلا (gap) کو مدلل اور ہم آہنگ طریقے (logical and consistent way) سے خود سے مکمل کرنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ انسان فطری طور پر خود کو کامل دیکھنا چاہتا ہے۔ کسی بھی بے ربط کہانی میں دماغ اپنے ماضی کے تجربات و مشاہدات اور اپنی قریبی ثقافت اور معاشرتی رجحانات و روایات کی روشنی میں ربط خود سے پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ کہانی ہم آہنگ اور غیر متناقض لگے۔ یہی اس گیپ فیلیسی (gap fallacy) کی بنیاد ہے اور یہی فالس میمری (false memory) کا سبب ہے۔ ہم اپنی روز مرہ زندگی میں کئی فیصلے اسی فالس میمری کی بنیاد پہ لیتے ہیں اور نہ صرف اپنے ارد گرد کے لوگوں بلکہ دیگر اقوام سے یقین کی حد تک وہ باتیں یا اعمال منسوب کرتے ہیں جو انہوں نے کبھی نہیں کی ہوتیں۔ اس سارے معاملے میں زمانی و مکانی فاصلہ (spatial and temporal distance) گمان یا فیلیسی کے راست متناسب ہے۔ فاصلے جس قدر زیادہ ہونگے یا رسائی جس قدر کم ہو گی، فیلیسی بھی اسی قدر زیادہ ہو گی کیونکہ فاصلہ بڑھنے سے ایک طرف تو بقیہ آدھا سچ حواس خمسہ کی پہنچ سے دور ہو جاتا ہے اور دوسرا معاشرتی اقدار و روایات اور ماضی کے تجربات میں تفریق فاصلے کے راست متناسب ہے۔ اسی وجہ سے تاریخ دانوں کی اکثریت تاریخ دانی کے معاملے میں چاہ کر بھی غیر جانبدار نہیں رہتی اور عین اس اعتبار سے ہر علاقے، ہر جگہ حتیٰ کہ ہر شخص کی مذہب کی اپنی ورژن ہوتی ہے کیونکہ مذہب بھی آدھے سچ کی بدولت زمانی و مکانی فاصلے کے اعتبار سے قیاس آرائیوں اور گیپ فیلیسی سے اسی قدر متاثر ہوتا ہے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

شاید

On Human Nature

پہلا رُخ