اشاعتیں

On Human Nature

Every new generation is hardwired to resist, reject and overthrow an established order, conventional system or status quo because human being especially in early age, being in active state, is naturally a novelty seeker or explorer of the unknown things and untried methods (probably because to bask in the feelings of perfection and to deceive himself of being an all-knowing omnipotent immortal) and he feels old order as a hindrance. That's what precisely drives him. ‘Life’, in other words, is actually a motion which at every cost would go against stillness of anything that is already established in order to achieve another stillness for establishing another order, like from one stride to another, from one step to another, from one rung of a ladder to another. On a whole, progress or movement of one generation is like a single stride or step of one man, whether downward or upward. Human nature inherently desires to preserve himself, to stay, to achieve stillness or stability to gain

شاید

شعور کو زندگی کی بے معنویت، وسعتِ کائنات کے سامنے اپنی بے بسی اور صفحہ ہستی سے دائمی اور مکمل مٹ جانے کی تکلیف ہر دور میں ناقابلِ برداشت رہی ہے۔ شاید اسی تکلیف کو کم کرنے کے لیے ہر انسان میں انفرادی طور پر اور پھر ہر معاشرے میں مجموعی طور پر مذہب اپنی راہ نکالتا ہے۔

بند دروازہ

When one door closes another opens, but the closed door takes away all the light, leaving us completely blind to see towards the open door. For that and only that reason, we grope here and there in search of light during the melonchaly days of our life.

محسوسات

Life of all human beings pendulate between the duality of two opposite forces. For people like me or those driven by the circumstances these forces are always at peak causing maximum tension to rip them apart. جب ہم اپنے اوپر مکمل اختیار کی طاقت محسوس کرتے ہیں تو ہم کسی بھی انسان کا سہارا نہیں چاہتے، کسی انسان کا ساتھ نہیں چاہتے اس وقت ہم اگر کوئی ایسی تمنا غلطی سے بھی بیدار ہو تو شعور ہمارے اندر کے خدا کی توہین پہ احتجاج کی صدا بلند کرتا ہے لیکن دوسری طرف جب ہم جذبات کے ریلے میں بہہ جاتے ہیں تو کسی ایسے کامل سہارے کی تمنا کرتے ہیں جو ہماری زندگی کے سارے غم جذب کر لے، ہمیں اپنی آغوش میں لے کر دنیا سے چھپا لے۔ کبھی کبھار ہم اس خواہش میں گم ہو جاتے ہیں کہ ہمیں تلاش کیا جائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اذیتوں، تکلیفوں، پریشانیوں، افسردگیوں، جدائی کے دکھ کا ہمارے محبوب کو احساس ہو لیکن ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ اسے یہ خبر ہمارے بتائے بغیر ہو۔ ہم محبوب سے بہت کچھ کہنا چاہتے ہیں لیکن ہم اس سلسلے میں خاموشی کو بہتر سمجھتے ہیں اور یہ خواہش رکھتے ہیں کہ محبوب کو اس کی خود بخود خبر ہو جائے۔ اگر ہم نے با

پہلا رُخ

انسان نے شاید ہر اس چیز سے بغاوت کا علم بلند کیا ہے جو اسے اپنے طرف کھینچتی ہے، جو اس کی عقل سلب کر دیتی ہے یا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، جس سے اسے خود پہ اختیار نہیں رہتا، جس سے وہ اپنے حوش و حواس میں نہیں رہتا۔ شاید اس کے پیچھے ممکنہ وجہ یہ ہے کہ انسان اپنے شعور کو ہر چیز پہ فوقیت دینے پہ مصر ہے یا شعور خود کو سب سے اعلیٰ و ارفع تصور کرتا ہے اور ہر وہ چیز جو اس سے اختیار کی صلاحیت چھین لے اس کے نزدیک قابلِ نفرت ہے۔ انسان اسے اپنی توہین تصور کرتا ہے کہ وہ اس کے سامنے جھک گیا ہے۔ اچھائی اور برائی کا پیمانہ بھی شاید یہیں سے ماخوذ ہے اور ہر برائی کے بعد احساسِ ندامت پیدا ہونے کی وجہ بھی شاید یہی ہے۔

آدھا سچ

آدھا سچ اسی لیے خطرناک ہوتا ہے کیونکہ یہ ہمیں اس بقیہ کو بھی سچ ماننے پر مائل کرتا ہے جو ہم نے ابھی دیکھا یا سنا ہی نہیں ہے۔ یہ اس گیپ کو اپنی مرضی کی فیلیسی سے فل کرتا ہے جو آدھے اور پورے سچ کے درمیان ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ seeing is believing بالکل اسی طرح believing is seeing بھی اتنا درست ہے۔ seeing is believing آدھا سچ ہے اور جب ہم اس آدھے سچ کو مان لیتے ہیں تو پھر ہم believing is seeing کے تحت جو مان لیتے ہیں اسی نظر سے باقی کے آدھے سچ کو دیکھتے ہیں۔ یہاں جانبداری اپنی راہ لیتی ہے اور اسے آدھے سچ کے ایمان پہ باقی کا آدھا سچ فیلیسی (fallacy) سے مکمل کرتی ہے کیونکہ انسان کا دماغ آدھے سچ اور پورے سچ کے درمیان خلا (gap) کو مدلل اور ہم آہنگ طریقے (logical and consistent way) سے خود سے مکمل کرنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ انسان فطری طور پر خود کو کامل دیکھنا چاہتا ہے۔ کسی بھی بے ربط کہانی میں دماغ اپنے ماضی کے تجربات و مشاہدات اور اپنی قریبی ثقافت اور معاشرتی رجحانات و روایات کی روشنی میں ربط خود سے پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ کہانی ہم آہنگ اور غیر متناقض لگے۔ یہی اس گیپ فیلیس